عربی میں بقیع ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں مختلف قسم کے جنگلی درخت اور جھاڑ جھنکاڑ پائے جاتے ہوں بقیع غرقد کی وجہ تسمیہ یہی ہے کہ یہاں ایک کانٹے دار غرقد نامی درخت کی کثرت تھی جسکی وجہ سے اس جگہ کا نام بقیع غرقد پڑ گیا
اس جگہ کے علاوہ بھی مدینہ منورہ میں بعض بقیع نامی مقامات پائے جاتے تھے، منجمد ان کے بقیع خنجبہ جہاں خنجبہ نامی درخت کی کثرت تھی بقیع بطحان جووادی بطحان سے منسوب ہے، بقیع الخیل اس جگہ قدیم زمانہ میں اہل مدینہ کا بازار لگتا تھا
لیکن مطلقا جب بھی بقیع کہا جائے گا اس سے مراد اہل مدینہ کا قبرستان بقیع غرقد ہی ہوگا بقیع المصلی، بقیع الخضمات وغیرہ وغیرہ
عوسج کے بڑے درخت کو غرقد کہا جاتا ہے عوسج کانٹے دار درخت کو کہتے ہیں۔ ان ہپ درخت ختم ہو گئے ہیں مگر نام باقی ہے اس وقت یہ اہل مدینہ کا قبرستان ہے
جیسا کہ اوبر گزر چکا ہے بقیع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں جنگلی پیڑ پودے بکثرت پائے جاتے ہو اور چونکہ بقیع قبرستان کا بام بھی بقیو غرقد پڑ گیا۔ اس کا محل وقوع یہ ہے کہ قبرستان مدینہ منورہ کی آبادی سے باہر مسجد النبوی ﷺ کے مشرقی سمت میں واقع ہے اس کے اردگرد مکانات اور باغات تھے اور تیسری صدی میں جو مدینہ منورہ کی فصیلی دیوار تعمیر ہوئی اس سے یہ ملا ہوا تھا۔ اس کی فصیل کی تجدیدات متعدد بار ہوئی جن میں آخری تجدید عثمانی ترکوں کے دور میں سلطان سلیمان قانونی کے زمانہ میں ہوئی پھر اس ملک میں امن وامان قائم ہو جانے کے بعد اس فصیلی دیوار کو منہدم کر دیا گیا پھر مسجد النبوی ﷺ کی آخری توسیع میں اس قبرستان اور مسجد النبوی ﷺ کے درمیان جو مکانات تھے ان سب کو منہدم کر دیا گیا،ان دونوں کے درمیان جو محلہ آباد تھا وہ اغوات کے نام سے معروف تھا۔ مسجد النبوی ﷺ کے مشرقی سمت میں اب یہ بقیع قبرستان مسجد النبوی ﷺ کے خارجی صحن سے مل چکا ہے
آپ ﷺ اور مہاجرین رضی اللہ تعالی عنمہا نے جب مدینہ منورہ ہجرت کی تو اس مبارک شہرمیں مزید تعمیری اور تمدنی ترقی ہونے لگی اس وقت آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ کوئی مناسب جگہ مسلمانوں کی اموات کی تدفین کے لیے متعین ہوجائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر آپ ﷺ اس جگہ تشریف لائے تو ارشاد فرمایا: مجھے اسی جگہ کا حکم (قبرستان کے لیے) دیا گیا ہے ( مستدرک امام حاکم ۱۱/۱۹۳)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو اس جگہ مسلمانوں کا قبرستان بنانے کا حکم فرمایا تھا
سنہ ۲ ھ میں غزوہ بدر کے بعد حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ہوئی
حضرت عثمان بن مظعون بن حبیب قرشی جمحی کنیت ابوالسائب، مشہور صحابی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں آپ کا شمار اجل صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ میں ہوتا ہے۔ آپ کو ایسے طبیعت کے نیک تھے کہ زمانہ جاہلیت یا زمانہ اسلام بھی کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا آپ تیرہ افراد کے بعد اسلام میں داخل ہوئے۔ اور دو یجرتوں کے شرف سے مشرف ہوئے۔ غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے حصہ لیا۔ اس کے چھ ماہ بعد آپ کی وفات کا سانحہ پیش آیا۔مہاجرین میں سے سب سے پہلے آپ وفات پانے والے تھے۔ آپ کی وفات پر آپ ﷺ نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی انکھوں کے درمیان بوسہ لیا اور فرمایا ہمارے پیش رو میں عثمان بہت اچھے ہیں۔الاستیعات لابن عبد البرا ۱/۳۲۴۔ والاصابۃ لابن حجر ۲/۲۴۰
آپ ﷺ کی قبر پر آپ ﷺ نے پتھر نشانی رکھی تاکہ قبر کی زیارت کریں اور جو بھی آںحضرت ﷺ کے اہل بیت سے وفات پائے اس کو ان کی قبر کے نزدیک دفن کریں۔ ابو دارود
علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ پہلے کس کی تدفین ہوئی حضرت بن زرارہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ یا عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنہ تو اس میں تطبیق یہ ہے کہ انصار میں پہلے حضرت اسعد انصاری اور مہاجرین میں سے عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالی عنمہا
پھر جب بھی کسی مسلمان کی وفات ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا جاتا کہ کہاں دفن کریں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہمارے پیش رو عثمان بن مظعون کے پاس (الحاکم فی المستدرک، الطبرانی فی المعجم الکبیر)
اس طرح یہ بقیع نامی مقام مسلمانوں کا مقبرہ ہو گیا وقت کے ساتھ ساتھ اس مقبرہ میں قبروں کا اضافہ ہوتا رہا چنانچہ کتب احادیث اورتاریخ و سیر کی کتابوں میں مزکور ہے کہ اس قبرستان میں دس ہزار سے زیادہ حضرات صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہما اس کے علادہ تابعین علماء صلحاء اور عامۃ المسلمین اس قبرستان میں مدفون ہیں
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں جب قتنہ کی آگ اٹھی اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا گیا تو آپ کو جنت البقیع میں دفن نہ کیا جا سکا آپ کو خارج مشرقی سمت میں حوش کوکب باغ جس کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے خریدا تھا اس میں دفن کیا گیا
حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ بنے تو آپ نے اس باغ کو جس میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ مدفون تھے اس کو بقیع میں شامل کر دیا یہ بقیع کی پہلی توسیع تھی اس کے بعد بقیع قبرستان عرصہ دراز تک اسی حالت میں رہا تاریخ اور سیر کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد کسی دور میں بھی جنت البقیع کی توسیع نہیں ہو سکی
سعودی دور حکومت میں بقیع عمات کو جنت البقیع میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا یہ وہ جگہ تھی جہاں آپ ﷺ کی دو پھوپھیاں حضرت صفیہ اور عاتکہ رضی اللہ تعالی عنہما مدفون تھیں
بقیع عمات کے علادہ اس کے مشرق میں ایک تکونہ جگہ تھی جو میونسپلٹی کے زیر انتظام تھی اس کو بھی بقیع میں شامل کر دیا گیا اس طرح بقیع قبرستان میں شامل ہونے والے رقبہ کی پیمائش ۵۹۲۹ مربع میٹر ہو گئی اس توسیع کے بعد بقیع میں داخل ہونے کے لیے شمالی سمت میں دو دروازے کھولے گئے جبکہ مغرب کی جانب پہلے دو دروازے موجود تھے اس طرح بقیع کے چار دروازے ہو گئے
سنہ ۱۳۹۰ میں بقیع کے گرد پختہ دیواروں سے گھیر دیا گیا اور اس کے اندر بھی پختہ رستے بنا دیے گئے
دوسری سعودی توسیع جنت البقیع کا کل رقبہ ۱۷۴۹۵۳ مربع میٹر کی گئی اس میں اموات کے غسل وکفن اور جنازے کی مکمل تیاری کا نظام رکھا گیا
متعدد احادیث میں مدینہ منورہ میں انتقال ہونے اور بقیع میں دفن کی فضیلت وارد ہوئی ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے جس کو ہو سکے کہ اس کا انتقال مدینہ منورہ میں ہو تو وہ مدینہ میں مرنے کی کوشش کرے۔ اس لیے کہ جس کی مدینہ میں وفات ہو گی میں اس کی شفاعت کرونگا ( ترمذی باب فضل مدینہ، احمد فی المسند)
اہل بقیع کو آپ ﷺ کی دعا و استغفار کی سعادت حاصل ہوئی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب میری باری کی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے آخیر حصہ میں بقیع قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور فرماتے السلام علیکم دار قوم مومنین تمہارے اوپر سلام ہو اے مومنوں کے گھر والو تمہارے ساتھ کیا گیا وعدہ آچکا جو کل پاؤ گے یا ایک مدت کے بعد اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو تم سے ملنے والے ہیں اور اللہ بقیع الغرقد والوں کی مغفرت فرما
صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2248
آپ ﷺ نے فرمایا جس کی حرمین میں سے کسی بھی حرم میں وفات ہو جائے تو وہ قیامت کے دن امن والا اٹھایا جائے گا ( البیہقی فی سنن، دارالقطنی)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا۔ سب سے پہلے جس شخص سے زمین شق ہوگی وہ میں ہونگا پھر ابو بکر پھر عمر پھر اہل بقیع رضی اللہ تعالی عنہما پھر میں اہل بقیع کے پاس آونگا تو وہ میرے ساتھ جمع ہوں گے اس کے بعد میں اہل مکہ کا انتظار کرونگا پس میں حرمین کے درمیان سے اٹھوں گا (ترمذی فی سننہ، حبان فی الصحیح، ولحاکم المستدرک)
ام قیس بنت محصن رضی اللہ تعالی عنہا سے فرماتے ہیں کیا تم اس مقبرہ کو دیکھ رہی ہو؟ اس میں ستر ہزار افراد قیامت کے دن اٹھیں گے جن کے چہرے چودہویں رات کی مانند چمک رہے ہونگے اور یہ لوگ جنت میں بغیر حساب داخل ہونگے(الحاکم المستدرک۔ طبرانی فی المعجم الکبیر)
جنت البقیع قبرستان والوں کے فضاءل
جواب دیںحذف کریںسبحان ﷲ تبارک و تعالیٰ عزوجل, ....................................... صَلُٓوا عَلَی الحَبِیب:--- "صَلَٓی اللهُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَٓد، صَلَٓی اللهُ تعالی عَلَیهِ وَاٰلِه و اصحابهِ وَسَلَٓم"
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ مفید معلومات
جواب دیںحذف کریںانتے عظیم اور جلیل القدر اصحاب رسول اور امھات رسول اور تابعین کے ہونے کے باوجود ۔۔۔۔ خادم حرمین شریفین کہلانے والوں نے کس طرح گوارہ کیا کہ اسلام کے ان عظیم اثاثوں کی قبروں کو منھدم اور مسمار کر دیا جائے۔۔۔۔۔ لمحہ فکریہ۔۔۔۔ یا یہ مسلمان نہیں یا پھر فقط اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور انہیں نہیں ۔۔۔۔ ؟؟؟؟؟!!!!!!
جواب دیںحذف کریں