اصحاب صفہ کا چبوترہ


لفظی تشریح:
مادۂ صف کے اصلی معنیٰ ہیں، انسانوں ، جانوروں یا کسی شے کا ترتیب کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا۔ اسی لیے تحریر میں حروف اور الفاظ کے برابر قائم ہونے کو صفّہ اور اور سطر بھی کہتے ہیں۔ کسی بڑی تعمیر کے برابر کوئی چبوترہ بیٹھنے کے لیے بنا دیا جائے تو صفّۃ البناء یا صفّۃ البیت کہتے ہیں۔ مسجد کے ساتھ ایسی نشست گاہ بنائی جائے تو اسے صفّۃ المسجد کہا جاتا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ فرق بھی بتایا ہے کہ بیٹھنے کی یہ جگہ کھلی ہو تو شرفتہ اور اگر چھپر ہو تو اسے سقیفہ یا صفّہ کہا جائے گا۔ سقیفہ بہت بڑے چوبارے کو کہتے ہیں اور صفّہ چھوٹے سے مُسقّف چبوترے کو۔

صفّہ کیسے بنا؟
مسجد نبوی کے ساتھ صفّہ مدینہ منورہ کے یا عام عرب آبادیوں کے لیے کوئی نادر اور جدید بات نہ تھی۔ گھروں کے ساتھ، باغوں میں، اور شکار گاہوں میں اس طرح کی بیٹھکیں بنائی جاتی تھیں اور انہیں صفّہ ہی کہا جاتا تھا۔ گھوڑے کی زین اور اونٹ کی کاٹھی پر نرم جگہ بنانے کے لیے نرم گھاس کی ایک گدی بناتے تھے، اسے بھی صفّۃ الرّحال کہتے تھے۔

ّصُفّہ کب بنا تھا؟
صُفّہ جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے مسجد نبوی مدینہ منورہ سے ملحق ایک مسقّف چبوترہ تھا۔ اس کا محل وقوع یہ ہے کہ مسجد نبوی کے صحن سے باہر مشرق کی طرف قبلہ سے مخالف سمت یعنی شمال میں مسجد کے دروازہ سے باہر ایک چبوترہ تھا، کہیں اس کی پیمائش کا ذکر تو روایات میں نظر سے نہیں گزرا لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تقریباً ۲۰ فٹ طویل اور تقریباً۱۵ فٹ عریض چبوترہ تھا۔
صفّہ کب بنا تھا، اس کے لیے صفّہ کا محل وقوع خود ایک دلیل ہے۔ صفّہ مسجد نبوی سے باہر جانب شمال میں تھا اور یقیناًوہ تحویل قبلہ یعنی ۱۵ شعبان ۲ھ کے بعد ہی بنا ہو گا۔ کیونکہ اس وقت مسجد نبوی کا قبلہ جانب شمال تھا۔ جب کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تو جنوبی رخ پر قبلہ کی دیوار بنائی گئی اور شمالی رخ خالی ہو گیا۔ پھر حدود مسجد سے باہر شمالی رخ پر یہ چبوترہ بنا ہو گا، بہرحال اس کے بعد بھی کوئی ذکر اس کا غزوۂ بدر کبریٰ سے پہلے نہیں ملتا ہے۔ غزوۂ بدر کبریٰ رمضان ۲ھ میں ہوا تھا۔

اصحاب الصُفّہ:
مختلف اوقات میں کتنے لوگ صُفّہ پر قیام پذیر ہوئے، ان کی مکمل یا غیر مکمل کوئی فہرست مہیا کرنا ممکن نہیں ہے۔ سات یاآٹھ سال کی مدت میں جب کہ صفۃ المسجد واردان مدینہ کے لیے وقتی قیام گاہ رہا۔ سیکڑوں ہی اشخاص کو اس چبوترے پر قیام پذیر ہونے کا موقع ملا، کہاں اس کا کوئی رجسٹر تھا، یا اس سلسلہ میں کوئی یادداشت تیار کی جاتی تھی جو فہرست مہیا کی جائے۔ سیکڑوں سال کے بعد سیرت نگار حضرات نے ان کی تعداد بھی مختلف بتائی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ان کی تعداد چار سو تک پہنچتی ہے، کوئی کہتا ہے کہ ستر اسی تک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و صحابیات رضی اللہ عنہم کے تذکرہ میں سب سے بڑی کتاب جو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ امام ابن حجر العسقلانی المتوفی ۸۵۲ھ کی کتاب الاصابہ ہے۔ اس میں یقینی و غیر یقینی صحابہ و صحابیات کے جملہ اسما بارہ ہزار سے کم ہیں، اور ان میں سے بھی بہتوں کا کوئی حال درج نہیں ہے۔ حالانکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ حجۃ الوداع میں آپ کے ساتھ حج کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار یا اس کے قریب قریب تھی۔ اس طرح شرکائے حجۃ الوداع میں سے شاید ساٹھ فیصد کے نام بھی ہم تک نہیں پہنچے ہیں، تو یہ کہاں ممکن ہے کہ سارے اصحابِ صُفّہ کی فہرست مہیا ہو سکے۔

الحاکم نے المستدرک میں جلد۳، صفحہ ۱۸، میں حسب ذیل اصحاب کے اسمائے گرامی اصحابِ صُفّہ میں لکھے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ یہ وہ چند اسمائے گرامی ہیں جو امام الحاکم کو مل سکے ہیں۔ یہ کوئی فہرست نہیں ہے۔ بہرحال وہ اسمائے گرامی یہ ہیں:

(۱) حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح ؓ (۲) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ
(۳) حضرت بلال بن رباح ؓ (۴) حضرت عمار بن یاسرؓ
(۵) حضرت مقداد بن عمر وؓ (۶) حضرت خباب بن ارتؓ
(۷) حضرت صہیب بن سنانؓ (۸) حضرت زید بن الخطابؓ
(۹) حضرت کنانہ بن حصینؓ (۱۰) حضرت ابو کبشہؓ (مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
(۱۱) حضرت صفوان بن بیضاءؓ (۱۲) حضرت ابو عبس بن جبرؓ
(۱۳) حضرت سالم مولیٰ ابو حذیفہؓ (۱۴) حضرت مسطح بن اثاثہؓ
(۱۵) حضرت مسعود بن ربیع ؓ (۱۶) حضرت عکاشہ بن محصنؓ
(۱۷) حضرت عمیر بن عوفؓ (۱۸) حضرت عویم بن ساعدہؓ
(۱۹) حضرت ابو لبابہؓ (۲۰) حضرت کعب بن عمیرؓ
(۲۱) حضرت خبیب بن سیافؓ (۲۲) حضرت عبداللہ بن انیسؓ
(۲۳) حضرت ابوذر جندب غفاریؓ (۲۴) حضرت عتبہ بن مسعود ہذلیؓ
(۲۵) حضرت عبداللہ بن عمرؓ (۲۶) حضرت سلمان الفارسیؓ
(۲۷) حضرت حذیفہ بن الیمانؓ (۲۸) حضرت حجاج بن عمر الاسلمیؓ
(۲۹) حضرت ابوہریرہ عبدالرحمن بن صخر الدوسیؓ (۳۰) حضرت ابو الدّرداء عویمر بن عامرؓ
(۳۱) حضرت عبداللہ بن زید جہنیؓ (۳۲) حضرت ثوبانؓ ( مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)
(۳۳) حضرت معاذ بن الحارثؓ (۳۴) حضرت سائب بن الخلادرؓ
(۳۵) حضرت ثابت بن ودیعہؓ


اس سے بڑی کوئی فہرست میری نظر سے نہیں گزری۔ ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء، جلد۱، صفحہ :۳۳۹ اور السمہودی نے وفاء الوفاء، جلد ۱، صفحہ :۳۲۹ میں اصحابُ الصُفّہ کے کچھ احوال لکھے ہیں، ان لوگوں نے بھی اس سے بڑی کوئی فہرست پیش نہیں کی ہے۔

اب اصحاب صفہ کہاں ہے؟
مسجد نبوی میں ریاض الجنه سے متصل ، روضۂ اقدس محمّد صلی الله علیہ وسلم کے پشت پر محراب تہجد کے چبوترے سے تھوڑا پیچھے میں ایک نسبتا '' بڑے چبوترے کے شکل میں موجود ہوں - باب جبریل سے مسجد نبوی میں داخل ہوں تو میں سامنے ہی نظر آتا ہوں - لوگ مجھے بڑی قدر و منزلت سے دیکھتے ہیں اور مجھ پر نماز پڑھنے کے سعادت بھی حاصل کرتے ہیں -

عمومی طور سے اس تصویر میں دکھائے گیے چبوترے کو زائرین حج و عمرہ اصحاب صفہ کا چبوترا سمجھ لیتے ہیں جو درست نہیں ہے- یہ چبوترا تو بہت بعد میں ترکیوں نے مسجد کے محافظوں اور خدام کے بیٹھنے کے لئے بنایا تھا -


موجودہ مسجد نبوی میں اصل چبوترے کے کوئی واضح نشانات تو موجود نہیں- لیکن ذرا سی توجہ سے ہم اس کا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں -

ایک بات اور ضروری ہے کہ مسجد النبوی میں ٧ ہجری تک یہ چبوترا ایک مقام پر رہا جو اس وقت کی اصل مسجد کی شمالی دیوار سے متصل تھا مگر ٧ ہجری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دور میں جب مسجد النوی کی پہلی توسیع کی گیی تو اس چبوترے کا مقام بھی تبدیل کر دیا گیا - تاہم یہ بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ یہ چبوترا جو اس تصویر میں نظر آرہا ہے اور جس کو آج کل ہم اصحاب صفہ کا چبوترا سمجھ لیتے ہیں کبھی بھی اصحاب صفہ کا چبوترا نہیں رہا -

1 تبصرہ: