تاریخ مدینہ


مدینہ منورہ کے تاریخ نگاروں کی رائے ہے کہ اس شہر کو جس نے بسایا اس کا نام یثرب تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کے پوتوں میں چھٹی یا آٹھویں نسل سے تھا, اس کا قبیلہ عبیل نام سے معروف تھا. مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ لوگوں نے انفرادی واجتماعی طور پر اس بستی کا رخ کیا, قوم عمالیق کے لوگ بھی آئے جنہوں نے اس بستی کو زراعتی بستی بنایا او ر کامیاب طریقہ پر کاشت کاری کی.

یثرب کی تاریخ میں صدیوں بعض ممالیک کا غلبہ رہا جیسے معینیین, سبئیین اور کلدانیین وغیرہ, اس طویل عرصہ میں اس بستی میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوئی, سوائے اس کے کہ یہاں سے جو قافلے ہو کر گذرتے ان سے آمدنی میں اضافۃ ہو جاتا جس سے یہاں کے باشندوں کے اقتصادی حالات درست ہوتے اور اطمینان سے رہتے. سنہ ۱۳۲ء میں یہاں تین یہودی قبائل پہنچے, یہ تھے بنو قریظہ, بنو نضیر اور بنو قینقاع, یہ یہود عموماً زراعت میں مشغول ہوئے تاہم بعض نے وہی پیشے اختیار کئے جن سے وہ وابستہ اور واقف تھے.
قبیلہ اوس وخزرج سد مأرب کی تباہی کے بعد ملک یمن سے ہجرت کرکے یہاں یہنچے تو یثرب کے غیر آباد علاقہ کو انھوں نے اپنا مسکن بنایا, ادھر یہودیوں کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جن کو وہ اپنے زراعی کاموں میں استعمال کر سکیں, چنانچہ یہود نے ان قبائل کے افراد کو اپنی کاشت میں استعمال کیا. وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حالات اچھے ہوتے گئے اور یہود کو یہ خطرہ ہونے لگا کہ کہیں یہ قبائل ان کے برابر کے نہ ہو جائیں چنانچہ اس سبب کی وجہ سے دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوئے, یہاں تک کہ طرفین کے ذی شعور افراد نے باہمی معاہدہ کیا جس کی رو سے ہر فریق امن وسلامتی کو اختیار کریگا اور خارجی دشمن سے یثرب بستی کا دفاع کریگا.
کچھ ہی عرصہ کے بعد یہود نے عہد وپیمان توڑ کر اوس وخزرج کو زیر کرنے کی ٹھان لی اور ان کے بعض افراد کو قتل کردیا, اوس وخزرج نے اپنے عم زاد شام کے غسان قبیلہ سے مدد طلب کی, چنانچہ غسان نے ایک بڑا لشکر تیار کرکے بھیجا جس نے آکر یہود کی شان وشوکت کو خاک میں ملا دیا. اب یہود پھر اتحاد ویک جہتی کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوئے اور اسطرح طرفین ایک عرصہ تک امن وسکون کے ساتھ رہتے رہے, لیکن یہود اپنی فطرت سے مجبور تھے, ان کو یہ امن وشانتی والی زندگی کیسے بھاتی, چنانچہ انھوں نے ان عرب قبائل (اوس وخزرج) میں جنگ کے ایسے شعلے بھڑکائے کہ ان میں تقریباً ایک سو بیس سال تک خونریز جنگ چلتی رہی, آخری اور مشہور جنگ "بعاث" کہلائی جس میں فریقین کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی, یہ جنگ اتنی سخت تھی کہ اس نے دونوں کے حوصلے پست کردئے اور تھک ہار کر باہم یہ طے پایا کہ عبد اللہ بن أبی بن سلول کو طرفین اپنا سردار منتخب کر لیں, اللہ تعالى کو کچھ اور ہی منظور تھا, ہوا یہ کہ اس درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہو گئی اور مکہ مکرمہ میں مدینہ منورہ کے کچھ باشندوں نے بیعت عقبہ اولى میں شرکت کی اور اس کے اگلے سال ہی بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی جس میں دونوں قبیلے کے افراد نے شرکت کی اور دونوں ہی نے مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضي الله عنهم کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے آنے کی دعوت دی, یہ وہ اہم موقع تھا جب دونوں حریف قبیلے ایک دوسرے کے رفیق بن گئے اور باہم اُلفت ومحبت پیدا  ہوکر دونوں ہی دین حنیف پر جمع ہوگئے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں