عین الزرقاء





مدینہ منورہ کے رہائشی کنووں کا پانی استعمال کرتے تھے۔ 51 ہجری میں جب امیر المومینین معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دمشق میں آب رسانی کا جدید نظام قائم کیا گیا تو مدینہ کے گورنر کو خط لکھا کہ مجھے حیاء آتی ہے کہ دمشق کے باسیوں کو گھر کے قریب پانی ملے اور مدینہ کے باسی دوردراز کنوں سے پانی لائیں لہذا وہاں بھی آب رسانی کا بہتر نظام قائم کیا جائے مدینہ کے گورنر مروان نے ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد قباء کے کنووں کو باہم ملایا اور ان کے پانی کو ایک زیر زمین نہر جاری کیا جو قباء سے شروع ہو کر مدینہ منورہ سے گزرتی اور مختلف جگہ سے اس اندازے سے کھولا کہ لوگ اپنی ضرورت کا پانی لے سکیں

اس پانی کو دس مقامات سے حاصل کیا جاسکتا تھا
1- وادی بطحان، 2-بنو سالم، 3- مسجد جمعہ، 4- باب قباء 5- باب المصری، 6-باب السلام، 7-حارۃ الاغوات، 8- قلعہ باب الشامی 9- زکی، 10-العطن

یہ نہر چودھویں صدی کے وسط تک اہل مدینہ کو سیراب کرتی رہی۔ 1349 ہجری میں ملک عبد العزیز نے ایک نگران کمیٹی تشکیل دی جس نے اسکی مرمت کی اور پھر اس میں پائپ ڈال کر آپ رسانی کے ایک جدید نظام کی بنیاد رکھی۔ تاآنکہ ہر گھر میں سرکاری پانی کا کنکشن دیدیا گیا پھر پانی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر سمندری پانی کو صاف کرکے اسمیں ملا دیا گیا اب محکمہ آب رسانی نے مختلف علاقوں میں بیس ٹینکیاں بنا دی گئی جہاں سے پانی سپلائی ہوتا ہے سب سے خوبصورت ٹینکی قباء میں ہے جسکی بلندی 90 میٹر ہے

1 تبصرہ: