مسجد قباء


حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہجرت فرما کر سب سے پہلے قبا میں قیام پذیر ہوئے۔ یہ اس زمانے میں مدینہ کی نواحی بستی تھی۔یہاں کی آبادی بھی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کر چکی تھی۔ اس مقام پر آپ نے ایک مسجد تعمیر فرمائی جسے قرآن مجید نے بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسی مسجد قرار دیا جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔

لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ۔ (التوبہ9:108 )  ”ایک ایسی مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی گئی ہو ، اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ (اے نبی!) آپ اس میں (نماز کے لئے) کھڑے ہوں۔ وہاں ایسے لوگ ہیں جو (اپنے جسم و روح کو ) پاک کرنا پسند کرتے ہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“
مسجد قباء مکہ سے آنے والی طریق الہجرہ پر واقع ہے۔ اگر آپ مکہ کی طرف سے مدینہ میں داخل ہوں تو کہیں مڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سڑک سیدھی مسجد قبا تک جاتی ہے۔ قبا کا علاقہ نہایت ہی زرخیز اور سر سبز و شاداب ہے۔ مسجد قبا کے ارد گرد گھنا سبزہ ہے اور کھجور کے کئی فارم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے میں بھی یہ ایک زرعی علاقہ تھا۔ احادیث کی کتب میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زراعت سے متعلق کئی روایات ملتی ہیں جو کہ ایک باقاعدہ زمیندار تھے۔
ایک حدیث میں مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھنے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس سے عمرہ ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم بھی یہاں نماز پڑھنے کے لئے ہر ہفتے تشریف لایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے مقصد محض نماز کی ادائیگی نہیں بلکہ قبا کے لوگوں کی تعلیم و تربیت رہا ہوگا۔ اس مسجد کی پہلی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کی۔ دوسری تعمیر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اضافہ کیا گیا۔بعد میں اس کی تعمیر و تجدید ہوتی رہی۔ مسجد کی موجودہ تعمیر شاہ فیصل کے دور میں 1968ء میں ہوئی جس میں 1985ء میں اضافہ کیا گیا۔ اب مسجد میں 20000 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں