حجاز ریلوے لائن اور سلطنتِ عثمانیہ

عالمی جنگ اول کے دوران سلطنت عثمانیہ کا مدینہ منورہ کے لیے ریل کا منصوبہ ۔ یہ تصویر فخری پاشا نے لی ہے جو اس وقت اس میں سفر کر رہے تھے 



رواں دواں ریلوے لائن رک چکی تھی، جو جہاں تھا ٹھہر چکا تھا۔ اس کے مسافر، اس کا عملہ، اس کے نگران جو سب محوِسفر یا وہ جو اپنی انتظامی ذمے داریوں پر اپنے اسٹیشنوں پر متعین تھے، سب کے سب جوں کے توں تباہ کردیے گئے۔ جابجا بکھری یہ تباہ شدہ باقیات اس عظیم حجاز ریلوے کی یاد لیے کھڑی ہیں جو ۱۹۰۸ء سے ۱۹۱۶ء تک دمشق سے مدینہ منورہ تک آتی تھی۔
سرزمینِ حرمین الشریفین حجاز ۱۵۱۸ء سے سلطنتِ عثمانیہ کی عمل داری میں شامل تھا۔ یہاں پر ان کا مقررکردہ گورنر ’’شریفِ مکہ‘‘ کہلاتا تھا۔ آخری شریفِ مکہ حسین بن علی تھا جو عرب کے ہاشمی خاندان سے تھا اور جسے ۱۹۰۹ء میں     عثمانی سلطان عبدالحمید ثانی نے شریفِ مکہ نامزد کیا تھا۔ سلطان عبدالحمید ثانی کا بڑا کارنامہ دمشق سے   مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے کی تعمیر تھی جو شریفِ مکہ،    بدو قبائل اور اونٹوں کے کاروانی مالکوں کی عملی مخالفت اور طویل تر زمینی خدوخال اور موسمی مشکلات کے باوجود ۱۹۰۸ء میں مدینہ منورہ تک مکمل اور رواں دواں ہوگئی۔ تاہم مکہ مکرمہ اور جدہ تک اس کی توسیع میں شریفِ مکہ اور اس کے حواری بدستور رکاوٹ ڈال رہے تھے تاآنکہ ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی اور یہ منصوبہ مؤخر ہوگیا۔
۱۹۱۶ء میں شریفِ مکہ حسین بن علی نے برطانیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے تحریک بیداریٔ عرب کے نام پر عثمانی ترکوں کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا اور انگریزوں کی عسکری اور مالی اعانت کے ساتھ لارنس آف عریبیہ کی  عملی سرکردگی میں بغاوت کو پروان چڑھا کر سلطنتِ عثمانیہ کی عمل داری کا خاتمہ کرتے ہوئے دمشق سے مدینہ منورہ تک ترکوں کی رواں دواں شہ رگ حجاز ریلوے لائن کو  تباہ و برباد کردیا۔
: حجاز ریلوے لائن کے ساتھ سفر
میں نے مدتوں مدینہ منورہ سے عمان (اُردن) تک حجاز ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ سفر کیا۔ صحرا کی وسعتوں میں عربی کی مانوس آوازوں کو سنتے، کھجور کے درختوں، عربی طرز کے مکانات دیکھتے، صحرا کی اڑتی ریت سے اَٹی ریلوے لائن اور سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی پٹری کا مشاہدہ کرتے، ترکی طرزِتعمیر میں تراشیدہ پتھروں سے بنے چھوٹے بڑے خوبصورت اسٹیشن اور ان سے پرے پیچھے ہٹتے ہوئے ترک فوجی قلعے اور بیرکیں، پٹری کے لیے کہیں کہیں بنے تراشیدہ پتھروں کے ترک طرزِتعمیر کے پل، اس کے ساتھ ہی جابجا تباہ شدہ ریل کی پٹریاں اور ان پر کھڑی جلی ہوئی زنگ آلود بوگیاں ، تباہ شدہ     ریل گاڑی کا انجن اور دور جا کر گرے ہوئے ریل گاڑی کے ڈبے، یہ سب عجیب دنیا کا منظر لگتا تھا۔
شہرِمدینہ منورہ میں بابِ عنبریہ کے ساتھ سیاہ گنبدوں والی خوبصورت عنبریہ مسجد سے ملحق سرمئی تراشیدہ پتھروں سے بنا مدینہ منورہ کا حجاز ریلوے اسٹیشن عربی اور ترکی   فنِ تعمیر کا حسین امتزاج ہے اور عثمانی ترکوں کے آخری دم تک طویل دفاعِ مدینہ کی وجہ سے آج بھی اپنی اصلی ہیئت میں محفوظ ریل کی پٹری، ڈبے اور انجن سمیت عثمانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ حجاز ریلوے کی مدینہ منورہ سے دمشق تک جاتی ریلوے لائن کہیں کچی ریتلی زمین پر بچھی ہوئی اور کہیں پہاڑی اُتار چڑھائو میں سے گزرتی ہے لیکن ریگستانی اور پہاڑی دونوں راستوں پرپھیلی یہ ریلوے لائن ہموار اور ستواں ہے۔ گردوپیش ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ کہیں کسی چھوٹی وادی سے گزرتی اور کہیں خودرو درختوں سے گھرا نخلستان پار کرتی تو کہیں کسی غیر آباد علاقے اور وسیع ویرانے کو عبور کرتی العلا تک پہنچ جاتی ہے۔
جزیرہ نمائے عرب کا قدرتی دفاعی حصار شمال مغرب میں کوہِ لبنان سے شروع ہونے والا وہ پہاڑی سلسلہ ہے جو جنوب میں باب المندب تک اور پھر اس سلسلۂ کوہ پر یہ خط ایک عمود بناتا ہوا ایک دوسرے پہاڑی سلسلے میں سارے جنوبی کنارے پر پھیلتا عمان تک چلا گیا ہے۔ اس کے علاوہ خشک اور بنجر زمین تہامہ ہے جو بحیرہ قلزم کے ساتھ ساتھ چلتی ساحلی میدان کی ایک تنگ پٹی ہے جو پہاڑوں کے ساتھ ساتھ جن کی اونچائی ۴۰۰۰؍فٹ تک بلند ہے اور سیدھی ڈھلوان سمندر کی طرف ہے۔ خلیج عقبہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ان پہاڑوں کی اونچائی ۴۰۰۰ سے ۷۰۰۰؍فٹ تک بلند ہے۔ حجاز کے ان ساحلی پہاڑوں کا سیدھا مغربی ڈھلوان صدیوں پہلے نمودار ہونے والے  غیر معمولی تغیروتبدل کے نتیجے میں ہوا جب زمین کی سطح سمندر کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی اور بلند و بالا پہاڑوں کے مغربی حصے بڑے بڑے ٹکڑوں کی صورت میں اس بڑی کھائی میں لڑھکتے ، پھر بحیرہ قلزم کی موجوں نے اس کھائی کو بھر کر برابر کردیا۔
حجازیہ جبلِ سراۃ کا کوہستانی علاقہ ہے جو یمن سے شام تک پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے میں بے آب و گیاہ پہاڑوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس میں خشک اور ناقابلِ عبور دروں کا ایک جال ہے۔ یہ تمام علاقہ غیرآباد ہے اور اس خاموش صحرا میں بچھی حجاز ریلوے لائن پر وقفوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کا ایک ٹھہرائو ہے۔ قدیم حجاز ریلوے کا خوبصورت، مسحورکن نظارہ، اس کا ماحولیاتی حسن اور دیدہ زیب و جاذبِ نگاہ       عثمانی طرزِتعمیر کے دلفریب ریلوے اسٹیشنوں کی ہر چیز ڈحرائی بودوباش کے بدوئوں نے نکال پھینکی اور اسے   مالِ غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے گھروں کے حفاظتی جنگلوں اور باڑ کے لیے اٹھا لے جاتے رہے۔
اگرچہ گزرتے وقت کی طویل مدت اور موسموں کے تغیروتبدل نے ان کے حسن کو دھندلا دیا ہے مگر پھر بھی تراشیدہ پتھروں سے بنے جابجا نظر آنے والے یہ شاہکار آج بھی اپنے طرزِتعمیر میں منفرد ہیں اور اس دور کا عکس پیش کرتے ہیں جب حجاز ریلوے ان کے آگے     رواں دواں تھی۔ جابجا ٹوٹی ہوئی ریلوے لائن بارودی دھماکوں اور انسانی ہاتھوں کے ظلم کی تاریخ بتاتی ہے۔ تاہم فولادی پٹریاں اور سلیپر آج بھی اپنے اعلیٰ معیار کا پتا دیتے ہیں۔ ترکی طرز کے قوس در قوس محرابی پل بنیادوں سمیت ٹوٹے پڑے ہیں اور ان کے اوپر لوہے کے سلیپر لٹکتی ہوئی ریلوے لائن کو سہارا دیے ہوئے آج اپنی تاریخی دفاعی جدوجہد کا منظر پیش کرتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ خودروجھاڑیوں کے علاوہ بچھی پڑی پٹری کے ساتھ سارا ماحول ویران ہے۔ کئی جگہ    تباہ شدہ حالت میں گاڑیاں پٹری سے الٹی پڑی ہیں۔ ایک جگہ ایک انجن چار پانچ ڈبوں سمیت کھڑا ہے جس کے مسافر اور عملہ شاید اس کے ساتھ ہی برباد ہوئے اور وقت کی تہ در تہ بدلتی ہوئی رنگت اور اڑتی ہوئی ریت کی لہردار تہوں نے انھیں زیرِخاک کردیا۔ خالی ڈبے گواہ ہیں کہ ان کا مال و اسباب بدوئوں کے لاتھوں لٹ گیا۔ حجاز ریلوے کا ایک انجن اپنے انجام پر نوحہ کناں مدینہ جاتے مسافروں کی بے نشان قبروں پر لَوحِ قبر بنا کھڑا ہے۔ پہاڑی راستے ویران ہیں۔ نہ عرب کا صحرائی نشان، نہ رواں دواں اونٹوں کا کارواں، نہ کوئی حدی خواں۔ آسمان کی فضا میں کوئی پرندہ بھی نہیں اڑتا۔ صرف خودروجھاڑیاں اور سنگلاخ چٹانیں سر اٹھائے کھڑی ہیں۔
مدینہ منورہ کے ریلوے اسٹیشن سے شمال کو نکلتی مدتوں سے ویران پڑی ریلوے لائن جوں جوں آگے بڑھتی ہے اس کی ویرانیوں اور تنہائیوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تباہی و بربادی کا پہلا نشان ابوالنعم ریلوے اسٹیشن کے قریب ریلوے لائن پر ڈائنامائیٹ شدہ گاڑیوں کے آثار سے ملتا ہے جو بڑھتے قدموں کو روک لیتے ہیں۔ اس سے آگے چلتے ہوئے ہدیہ ریلوے اسٹیشن کے قریب کھلا ہلکا نیلگوں آسمان اور اس کے نیچے دائیں بائیںآگے پیچھے حدِنگاہ تک بچھا ہوا صدیوں سے مٹیالی مٹی کی تہوں سے آراستہ میدان جہاں گہرے بھورے رنگ کی سیاہی مائل پہاڑیاں پیچھے ہٹتی ہوئی کھڑی ہیں۔ ایک قوی ہیکل فولادی انجن اپنے بائیں پہلو پر الٹا پڑا ہے ۔ اس کے پیچھے ریل کے جلے ہوئے ڈبے کھڑے ہیں۔
العلا سے ۱۶؍کلومیٹر پہلے حجاز ریلوے لائن ایک کُھلی  پُر فضا وادی میںسے گزرتی ہے۔ یہاں آج بھی ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ تھوڑے فاصلے پر جلی ہوئی زنگ آلود لائنوں کے ٹیڑھے میڑھے حصے اور ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں۔ جب کہ پاس ہی ایک تباہ حال ڈائنامائیٹ شدہ انجن ریت میں دبا سیدھا کھڑا ہے۔ اس کے آثار آج بھی انمٹ ہیں۔ انجن کے پچھلے حصے کی فولادی زنگ آلود سطح کو طاقتور دھماکے نے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ آج بھی اپنے ساتھ جلی ہوئی زنگ آلود گاڑیوں کے ساتھ اُڑتی ریت کے تھپیڑے کھا رہا ہے۔
یہاں سے ۳۴؍کلومیٹر آگے کُھلتی وادی کی تنہائیوں میں دلکش پیلے پتھروں سے بنا السرا (Alswarah) کا خوبصورت اسٹیشن اپنی تین عمارتوں کا جھرمٹ بنائے حجاز ریلوے لائن کے متوازی ویران پڑا ہے۔ جوں جوں العلا کی طرف بڑھتے ہیں اونچے پہاڑ پیچھے ہٹتے اور وادیاں اور میدان پھیلتے جاتے ہیں۔ عذابِ الٰہی کے آثار ایک ایک کرکے ماحول کو تاریخی تصورات میں گھیر لیتے ہیں۔ کھلی وسیع وادی میں ریلوے لائن سیدھی بچھی چلی جاتی ہے۔ لہراتی ہوائوں نے اس پر لہردرلہر ریت کی تہیں بچھا دی ہیں۔ کبھی یہ پہاڑ پھٹے تھے، زمین پھٹی تھی۔ العلا کے نواح میں اونچے پہاڑ بے قطار پھٹتے چلے گئے۔ مدائن صالح سے ۲۵؍کلومیٹر پہلے سراوت پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان تنگ ہوتی وادی آگے کی طرف پھیلتی اور کھلتی جاتی ہے۔ یہاں تیرھویں صدی عیسوی سے العلا اپنی نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ یہاں مٹی کی اینٹوں سے بنے گھروں کے قدیم شہر کے آثار بیسویں صدی کے آغاز سے ویران پڑے ہیں۔
العلا کا میٹھے پانی کا چشمہ آج بھی رواں دواں ہے۔ جہاں مقامی عرب بدو آج بھی قہوہ پیتے اور گئے وقتوں کی یاد دہراتے ہیں۔ یہاں کے ماضی کے بارے میں ان کی ہر بات حرفِ آخر ہے۔ العلا کے اردگرد ماحول شاداب ہے۔ پھلوں کا ایک نخلستان اور وادی ام القریٰ اس کا نام ہے۔ العلا حجاز ریلوے اسٹیشن کا ایک اہم اسٹیشن تھا۔ یہاں ریلوے کے تباہ شدہ آثار آج بھی موجود ہیں۔ العلا کے اسٹیشن پر آج بھی ایک گاڑی کھڑی ہے۔ وادی ام القریٰ میں العلا (Alula) کا نخلستان  مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان صدیوں سے رواں دواں کاروانی راہ گزر پر واقع تھا۔ اگرچہ ۷۵ ء میں رومنوں نے بحیرہ قلزم کے ساحلی راستے کو اپنایا اور اس طرح ۵۰۰؍سال تک العلا کی کاروانی رونقیں ماند رہیں۔ تاہم ۶۲۰ء میں اسلام کی آمد کے اور احکامِ حج کی بجاآوری کے لیے اس نخلستان میں کاروانِ حج کی آمدورفت سے پھر بہار لوٹ آئی۔
حجاز ریلوے کے ہراہم اسٹیشن کی طرح العلا ریلوے اسٹیشن بھی گاڑی کے ٹھہرنے کے پلیٹ فارم اور ۵؍ اہم عمارات پر مشتمل ٹکٹ آفس، اسٹیشن ماسٹر کا گھر، ۱۵؍فوجیوں پر مشتمل قلعہ نما دفاعی استحکام، پانی کا بلند ذخیرہ ٹینک اور ہوا چکی مدتوں سے ویران پڑے مدینہ منورہ کو جاتی حجاز ریلوے کی راہ تک رہے ہیں۔ العلا دمشق سے ۹۸۰؍کلومیٹر دور ترک فوج کا انفنٹری ہیڈکوارٹر بھی تھا۔ مدائن صالح کی طرف بڑھتی ریلوے لائن آہستہ آہستہ ایسے پہاڑوں کے درمیان جا نکلتی ہے جنھیں دیکھ کر گزرے عذاب کا تصور واضح ہوجاتا ہے۔ یہ پہاڑ سیدھے اور بلند ہیں۔ العلا سے مدائن کا راستہ انسان کو حیران کردیتا ہے۔ اونچے پہاڑ قطاردرقطار کھڑے ہیں۔ بعض پہاڑوں کے پھیلائو کے بجائے ان کی بلندی نظر کو کھینچ لیتی ہے۔ لگتا ہے جیسے قوی جسامت کے بھاری بھر کم منار نصب ہیں یا قدرتی کاٹ تراش سے آراستہ دفاعی قلعے یا معبد ہیں۔ سنگلاخ چٹانوں کے ایک ویران شہر کا تصور ابھرتا ہے۔ یہ مدائن صالح الحجر ہے۔ یہ قومِ ثمود کا مسکن ہے جنہوں نے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بنائے۔ جنھیں اپنی طاقت اور پائیداری پر ناز تھا۔ الحجر کے نام سے مذکورہ پہاڑوں کو کاٹ تراش کر بنا ہوا قومِ ثمود کا یہ سنگی شہر جس کی پائیداری پر اس قریہ کے لوگ نازاں تھے، شدید عذابِ الٰہی سے نشانِ عبرت بن گیا۔ مدائن صالح الحجر بلند پہاڑی سرزمین پر پھیلا شہر موٹی کھردری ریت اور تہ در تہ جڑے اخروٹی رنگ کے ریتلے پتھروں کے میدان مین قدیم نبطی تہذیب (Nabiataens) کا مسکن اور احوال و آثار کے حوالے سے سرزمینِ انبیا اپنی تما تر تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔
مدائن صالح میں کھڑے حجاز ریلوے کے بچے کھچے آثار محفوظ ہیں۔ شیڈ میں چھت تلے محفوظ ایک طاقت ور انجن آج بھی اپنی شناخت لیے کھڑا ہے۔ مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے کا یہ سب سے بڑا پڑائو تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی خوبصورت عمارت آج بھی موجود ہے۔ تاہم ریلوے ورکشاپ ویران ہے اور تباہ حال بوسیدہ گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ  پس منظر میں ایک پرانا ترکی دفاعی قلعہ ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ یہ قلعہ اس مقدس کنوئیں کے اردگرد تعمیر کیا گیا تھا جس سے حضرت صالحؑ کی اونٹنی پانی پیتی تھی۔ مدائن صالح سے آگے حجاز ریلوے لائن بنجر پہاڑوں اور کھلتی سمٹتی وادیوں میں سے گزرتی المرجم اور ابوطاقہ کے اسٹیشنوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔ آگے المطلع کا اسٹیشن ایک ویران ریلوے لائن پر پہرہ دے رہا ہے۔ تبوک حجاز کی سرحد پر واقع ایک ایسی سرزمین ہے جسے بڑی بڑی سنگلاخ چٹانوں اور خودرو جھاڑیوں کے سرسبز قطعات اور شکستہ پتھروں کے تودوں نے ڈھانپا ہوا ہے۔ اس میں کھجور کے درخت ہیں اور چشمے ابلتے ہیں اور اسے دونوں جانب سے پہاڑ گھیرے کھڑے ہیں۔ قدیم شہر تبوک کے کنارے اور نسبتاً اونچی زمین پر کھجوروں کے جُھنڈ میں گھرا ۱۶۹۴ء میں ترکوں کا بنایا ہوا قلعہ دفاعِ تبوک کی یاد لیے کھڑا ہے۔ تبوک میں رسولِ کریمؐ نے مدینہ منورہ سے دور دراز اس مقام پر رومیوں کے خلاف مدینے کا دفاع کیا تھا۔
تبوک سے آگے حجاز ریلوے لائن جبل شرورہ کے دامن کے ساتھ ساتھ حالات عمار اور قلعات المدورہ سے ہوتی تل الشنم اور وادی رتم سے بطن الغول کی خوفناک ویران جناتی بھول بھلیوں میں کھو جاتی ہے اور چکردرچکر سیدھی چڑھائی چڑھتے چڑھتے اوپر کی طرف باہر نکل کر غدیرالحج سے ہوتی ہوئی صدیوں سے آباد قدیم کاروانی ٹھہرائو معان پہنچ جاتی ہے۔ معان مدینہ منورہ سے آتے ہوئے شمال مغرب میں لگ بھگ ۸۰۰؍کلومیٹر اور دمشق سے آتے ہوئے جنوب میں ۴۸۹؍کلومیٹر پر حجاز ریلوے کا اہم پڑائو تھا۔
سولہویں صدی میں عثمانیوں نے معان(Maan) کے راستے کو بہتر بنایا۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ آب رسانی کے پرانے نظام کو پھر سے قابلِ استعمال بنایا۔ یہاں گارے مٹی کے بنے ہوئے گھروں کا قدیم عربی تعمیراتی حسن اور بہتے پانی سے سیراب ہوتے پھلوں کے باغ تھے۔ چشموں کے وافر پانی کی نعمت سے فیض یاب اس نخلستان میں لوگ انجیر اور انار اگاتے اور گزرتے کاروانوں کو فروخت کرتے۔ شام سے معان تک کے طویل خاموش اور ویران سفر کے بعد جب حج کے کارواں قلعات معان پہنچتے تو شاداب نخلستان کی اس سرزمین پر  ۲؍ روز کے لیے آرام اور قیام کرتے۔
حجاز ریلوے کی داستان اپنے ساتھ بہت سی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ زوردار حجاز ریلوے (The Mighty Hejaz Railway) بلادِشام کے قدیم دارالحکومت دمشق سے اپنے آخری پڑائو مدینہ منورہ تک آتی تھی۔   اولی العزم لوگوں کی محنت اور انجینئرنگ کا یہ عظیم الشان شاہکار آج آثارِپارینہ بن چکا ہے۔ اس کے بچے کھچے آثار مدینہ منورہ سے دمشق تک اپنے عہد کے یادگار نشانات کے طور پر باقی ہیں۔ دولتِ عثمانیہ کی حجاز ریلوے کی خاص نشانی ’’سلطان بوگی‘‘ دمشق کے قدیم ریلوے اسٹیشن پر کھڑی ہے اور اس میں عوامی ریستوران کھلا ہے جبکہ اس کے قریب ہی پرانے زنگ آلود ریلوے انجن اور بوگیاں کھڑی ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں