حضرت ابوایوب انصاریؓ


ہجرت کے کامیاب سفر کا اختتام کرتے ہوئے آنحضرتؐ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے۔ وہ دارالہجرت میں مستقبل کے مبارک ایام کا آغاز کر رہے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس جمِ غفیر کی صفوں کے درمیان سے گزر رہے تھے جس کے دل جرأت، محبت اور خوشی سے جوش مار رہے تھے۔ آپؐ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ ہر کوئی اونٹنی کی مہار تھامنے کے لیے ہجوم کیے ہوئے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مہمان نوازی میں کروں گا۔
سواری بنی سالم بن عوف کے گھروں کے قریب سے گزری تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے اونٹنی کی راہ روک لی کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس قیام فرمائیے۔ ہم نفری والے بھی ہیں اور سازوسامان کے مالک بھی اور دفاع بھی کر سکتے ہیں۔
بنی سالم بن عوف کے لوگ اونٹنی کی مہار تھامے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انھیں جواب دیا: خلو سبیلھا ، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘
اونٹنی بنی سالم بن عوف کے گھروں سے گزر کر بنی بیاضہ کے گھروں پھر بنی ساعدہ کے محلے پھر بنی حارث بن خزرج کے محلے پھر بنی عدی بن نجار کے محلوں اور ان تمام گھروں کے پاس سے گزر رہی تھی جو اس کی راہ میں آ رہے تھے۔ ہر قبیلہ اونٹنی کا راستہ روک رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کے گھروں میں نزول فرما کر انھیں سعادت بخشیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور آپؐ فرما رہے تھے: خلو سبیلھا ، فانھا مامورۃ ’’اس کی راہ چھوڑ دو، یہ حکم کی پابند ہے۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے نزول کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا تھا کیونکہ عنقریب اس جائے نزول کو بہت بڑا اعزاز و اکرام ملنے والا تھا۔ اس جگہ وہ مسجد تعمیر ہونا تھی جس سے توحید کی صدائیں اور نور کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر چہار دانگِ عالم میں پھیلنے والی تھیں۔ اس مسجد کے پہلو میں مٹی اور گارے کے وہ حجرے بھی تعمیر ہونا تھے جن کے اندر ’’گزارے‘‘ یا شاید ’’گزارے‘‘ سے بھی کم یعنی دنیاوی زندگی کا ’’ناگزیر‘‘ سامان بھی موجود نہ ہو۔
دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ان کٹیائوں میں انسانیت کے اس معلم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیام پذیر ہونا تھا جو اس لیے مبعوث ہوئے تھے کہ زندگی کے جامد ہو چکے جسد میں روح پھونکیں اور شرف و عزت کا حق دار اُن لوگوں کو قرار دیں جو یہ کہیں کہ ’’اللہ ہمارا رب ہے‘‘ اور پھر اس پر ثابت قدم ہو جائیں، یعنی ’’وہ لوگ جو اپنے ایمانوں کو ظلم کے ساتھ نہیں ملاتے۔‘‘ ہاں وہ جنھوں نے دین کو اللہ کے لیے خالص کر لیا تھا۔ جی ہاں وہ خیرخواہ ِ انسانیت کو زمین میں اصلاح کرنا چاہتے تھے، فساد برپا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اونٹنی کے ٹھہرنے کا معاملہ مکمل طور پر اس ذاتِ قدیر کے حوالے کر رکھا تھا جو آپؐ کی رہنمائی کر رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے اونٹنی کی نکیل چھوڑ دی تھی۔ آپؐ اس کی نکیل کھینچ کر اس کا رخ کسی طرف موڑتے تھے نہ اس کے قدم روکتے۔ آپؐ کا قلبِ اطہر اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ تھا۔ آپؐ کی زبانِ مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے: اللھم خرلی و اخترلی ’’اے اللہ! میرے لیے انتخاب فرما اور بہترین انتخاب فرما۔‘‘
بالآخر اونٹنی مالک بن نجار کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور مکان کے گرد چکر لگایا۔ پھر اسی جگہ واپس آگئی جہاں بیٹھی تھی اور پہلو زمین پر لگا دیا۔ پھر وہیں سکون سے بیٹھی رہی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  خوش و خرم اس سے نیچے اتر آئے۔ اس موقع پر ایک مسلمان آگے بڑھتا ہے، اس کا چہرہ خوشی و سعادت سے چمک رہا ہے۔ وہ آگے بڑھتا ہے اور اونٹنی کا کجاوہ اٹھا کر اپنے گھر کے اندر لے جا کر رکھ دیتا ہے۔ پھر رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم  سے درخواست کرتا ہے کہ آپؐ اس گھر میں قدم رنجہ فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنا سعادت و برکت سے معمور دامن لے کر آدمی کے پیچھے پیچھے گھر میں داخل ہو جاتے ہیں۔
حضرات! کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ خوش نصیب مسلمان کو ن تھا جس کے گھر کے سامنے اونٹنی بیٹھی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اس آدمی کے مہمان بنے تھے اور تمام کے تمام اہلِ مدینہ اس آدمی کی بلند بختی و سعادت مندی کو رشک کی نظروں سے دیکھ رہے تھے؟  یہ مسلمان،  ’’ابوایوب انصاریؓ‘‘ تھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں